جدید فتنوں کا مقابلہ: اہلسنت کو سنجیدہ قدم اٹھانا ہوگا


 

تحریر: غلام مصطفی

مسلکِ اہلسنت وجماعت (بریلوی) برصغیر کی ایک مضبوط علمی، روحانی اور تاریخی شناخت رکھتا ہے۔ اس مسلک نے نہ صرف عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مرکز بنایا بلکہ عقیدۂ ختمِ نبوت، ناموسِ رسالت، بزرگانِ دین کی حرمت اور تصوف کے اعلیٰ اقدار کو فروغ دیا۔ مگر عصرِ حاضر میں جو فکری و تہذیبی طوفان مسلم معاشروں کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے، اس کا مؤثر اور علمی ردّ ہماری صفوں سے خال خال نظر آتا ہے۔

آج کی نوجوان نسل فیمینزم، الحاد، لبرلزم، سیکولرزم، مادی نظریات اور سوشل میڈیا پر موجود مذہب بیزار پروپیگنڈے کے زیرِ اثر ہے۔ انہیں اگر بروقت متبادل اور مدلل جواب نہ دیا گیا تو فکری ارتداد اور عملی بے راہ روی ہمارا مقدر بن جائے گی۔

افسوسناک حقیقت:
اس وقت جب کہ یہ نظریاتی فتنہ اپنی جڑیں مضبوط کر رہا ہے، ہمارے علماء و خطباء کی ایک بڑی تعداد آپس میں فروعی اختلافات، مناظرے، یوٹیوب چینلز کے ویوز اور فالوورز کی دوڑ، اور “کس کی تقریر زیادہ وائرل ہوئی” "میں حق پر ہوں" جیسے غیر اہم معاملات میں الجھی ہوئی ہے۔ مذہبی اختلافات پر سارا زور صرف کرنے سے ہم اپنے اصل ہدف، یعنی عوام و خاص کی تربیت اور دفاعِ دین سے غافل ہو چکے ہیں۔

دوسری جانب:
دیگر مکاتبِ فکر، اپنی نوجوان نسل کی فکری تربیت پر سنجیدہ کام کر رہے ہیں۔ ان کے ہاں سوشل میڈیا پر اسلام اور جدید نظریات کا موازنہ، نوجوانوں کے سوالات کے عقلی و دینی جوابات، اور فکری نشستوں کا اہتمام عام ہو چکا ہے۔

تو سوال یہ ہے کہ اہلسنت (بریلوی) مکتب فکر کہاں ہے؟

اب کیا کیا جانا چاہیے؟ (ضروری اقدامات)
تھِنک ٹینک اور فکری ادارے بنائے جائیں:

اہلسنت کے باصلاحیت علماء، اسکالرز، نوجوان مفکرین اور ٹیکنالوجی جاننے والے افراد پر مشتمل ایک باقاعدہ ادارہ بنایا جائے جو فکری فتنوں کا جائزہ لے اور ان کا علمی و منطقی رد کرے۔

سوشل میڈیا پر مثبت اور با اثر مواد تیار کیا جائے:

صرف نعت خوانی، اوراد، اور جلسے ہی نہیں بلکہ فکری مواد، سوالات کے جوابات، اور جدید نوجوانوں کے مزاج کو سمجھ کر مواد پیش کیا جائے۔

مدارس کے نصاب میں فکری موضوعات شامل کیے جائیں:

جیسے الحاد کیا ہے؟ مغربی فکری نظریات کے نقصانات کیا ہیں؟ اسلام کا موقف کیا ہے؟ اس پر باقاعدہ دروس اور مباحثے ہونے چاہئیں۔

نوجوان مبلغین کو جدید زبان اور اسلوب سکھایا جائے:

ایک عام نوجوان سادہ دلیل، سائنسی و عقلی انداز میں بات سننا چاہتا ہے۔ ہمیں اس کی زبان میں بات کرنے والے لوگ تیار کرنے ہوں گے۔

آن لائن کورسز، سیمینارز اور ورکشاپس کا اہتمام کیا جائے:

جن میں سوشل میڈیا کی طاقت، الحاد کا رد، فیمینزم کا اسلامی تجزیہ، اور مغربی نظریات کے نتائج جیسے موضوعات شامل ہوں۔

مساجد اور خانقاہوں کا کردار بحال کیا جائے:

ان جگہوں کو صرف عبادات تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ فکری اور تعلیمی سرگرمیوں کا مرکز بنایا جائے۔

تربیتی ویڈیوز، ڈاکومنٹریز اور کتابچے شائع کیے جائیں:

جو مختصر، جامع اور عام فہم ہوں تاکہ ہر طبقے کے افراد فائدہ اٹھا سکیں۔

نتیجہ:
اگر ہم نے آج بھی اپنی توجہ صرف روایتی مناظروں، مقبولیت کی دوڑ اور وقتی شہرت پر مرکوز رکھی تو کل ہم صرف ماضی کا تذکرہ کرنے والی ایک یادگار جماعت رہ جائیں گے۔ آج کے چیلنجز جدید ہیں، ان کے لیے حکمت، تحقیق، تدبر اور جدید ذرائع کا استعمال بھی ضروری ہے۔

اب وقت ہے کہ مسلکِ اہلسنت اپنے اصل روحانی، علمی اور فکری کردار کی طرف لوٹے—نہ صرف دین کا دفاع کرے بلکہ آنے والی نسلوں کی رہنمائی کا مؤثر ذریعہ بنے۔

تبصرے