شائع کردہ بذریعہ
Fikr-e-Islami
کو
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
تحریر: (غلام مصطفی)
انسانی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ جب بھی کسی قوم نے فکر و شعور کے بجائے شخصیات اور نعروں کو اپنا معیار بنایا، وہ قوم تنزلی، تفرقہ، اور فکری غلامی کا شکار ہوئی۔ آج مسلمان معاشرے، بالخصوص نوجوان طبقہ، ایک بار پھر اسی ذہنی استعمار میں مبتلا ہو چکا ہے، جسے ہم "شخصیت پرستی" یا "شخصیت پسندی" کہتے ہیں۔
شخصیت پسندی (Cult of Personality) دراصل ایک نفسیاتی و سماجی مظہر ہے، جہاں کسی شخصیت کو عقل، منطق، دلیل، اور دین کے بنیادی اصولوں سے بالاتر مقام دیا جاتا ہے۔ اس نظریہ کی جڑیں تین بڑے محرکات میں پیوست ہیں:
احساسِ عدم تحفظ (Insecurity)
اجتماعی فکری سستی (Collective Intellectual Laziness)
تسکینِ انا (Ego Satisfaction)
یہ تینوں محرکات نوجوانوں کو شخصیات کی طرف کھینچتے ہیں، تاکہ وہ کسی بظاہر "مضبوط" رہنما کی چھاؤں میں اپنی کمزور شناخت کو چھپا سکیں۔
1. علم و عقل کا زوال:
شخصیت پسندی دراصل عقل پر عقیدت کے غالب آنے کا نام ہے۔ جہاں دلیل دم توڑتی ہے اور نعرہ زندہ باد ہو جاتا ہے، وہاں شخصیتیں دیوتا بن جاتی ہیں۔
2. حق و باطل کا موازنہ ختم:
"ہماری شخصیت ہمیشہ حق پر ہے" — یہ جملہ بذاتِ خود فکری جمود کی علامت ہے۔ قرآن ہمیں سکھاتا ہے:
"فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ"
(اے عقل والو! عبرت حاصل کرو)
[سورہ الحشر: 2]
3. استعماری ذہنیت کی باقیات:
جب یورپی اقوام نے مسلمانوں کو محکوم بنایا تو ایک طریقہ یہ تھا کہ فکر کی آزادی چھین کر "علامتی شخصیات" کو معیارِ حق بنایا جائے۔ آج سوشل میڈیا کے ذریعے وہی ماڈل مسلمان خود اپنائے بیٹھے ہیں۔
سوشل میڈیا نے شخصیت پرستی کو ڈیجیٹل دین بنا دیا ہے۔ اب لوگ دلیل نہیں، کلپس اور کوٹس سے متاثر ہوتے ہیں۔ ایک لیڈر یا عالم کی وائرل ویڈیو اس کی "حقانیت" کی سند بن چکی ہے۔ کوئی اس پر سوال اٹھائے تو فوراً:
"یہ گستاخ ہے"
"یہ دشمنِ دین ہے"
"یہ فلاں فرقے کا ایجنٹ ہے"
یہ زبان علماء سلف کی نہیں، بلکہ سیاسی و نفسیاتی گروہ بندی کی ہے۔
شخصیت پرستی کا شکار افراد:
اختلاف کو برداشت نہیں کرتے
دلیل کی جگہ جذبات کو ترجیح دیتے ہیں
خود احتسابی سے گریز کرتے ہیں
یہ تمام علامتیں "Groupthink Bias" اور "Cognitive Dissonance" جیسی نفسیاتی بیماریوں کی شکلیں ہیں۔
مشہور امریکی ماہرِ سماجیات Irving Janis کے مطابق، "جب لوگ کسی گروہ یا شخصیت سے جذباتی طور پر جڑ جاتے ہیں، تو وہ خودبخود اس کے دفاع میں 'سچ' کو قربان کر دیتے ہیں۔"
یہی بات ہمیں سوشل میڈیا پر مذہبی اور سیاسی شخصیات کے چاہنے والوں میں نظر آتی ہے۔
فکری تربیت – نوجوانوں کو دلیل، تحقیق، اور اختلافِ رائے کے اصول سکھانا۔
شخصیات نہیں، اصولوں سے وابستگی – اصول مقدم، شخصیت مؤخر۔
ادب و اختلاف کا توازن – تنقید کو گستاخی سے الگ کرنا۔
ڈیجیٹل شعور – سوشل میڈیا پر فکری اخلاقیات کا فروغ۔
شخصیت پسندی صرف ایک رویہ نہیں بلکہ ایک نظریاتی فتنہ ہے، جو اُمت کو علم، عدل، اور اتحاد سے دور کر رہا ہے۔ اگر ہمیں حق کو پہچاننا ہے، تو شخصیت نہیں، حق کو معیار بنانا ہو گا۔
"حق کو پہچانو، حق تمہیں شخصیتوں کی حقیقت دکھا دے گا۔"
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس

تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں